Faiz Ahmed Faiz: Best Urdu Poetry
Faiz Ahmed Faiz, a legendary figure in Urdu literature, is celebrated for his evocative and revolutionary poetry. His works capture the essence of love, pain, longing, and socio-political struggles with unmatched eloquence. In this post, we will explore Faiz Ahmed Faiz’s best poetry, featuring 15–20 of his most remarkable ghazals and nazams, along with their timeless verses.
Why Faiz Ahmed Faiz’s Poetry Is Timeless
Faiz’s poetry transcends boundaries of time and geography, blending romance with rebellion. His verses inspire not only love but also hope and resistance against oppression. Whether you’re looking for the best Urdu poetry of Faiz Ahmed Faiz or his revolutionary works, his writings will leave a profound impact.
1. Mujh Se Pehli Si Mohabbat Meri Mehboob Na Maang
This iconic poem beautifully juxtaposes personal love with societal challenges. Faiz writes:
ممجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تُو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟تُو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سواان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئےجسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گندی گلیوں، دلدلوں سے
سانپ کے بلّوں سے رینگتی ہوئی بلبلوں سے
جاگتے، سوتے، اونگھتے، پلتے ہوئے محلوں سےجن کے سائے میں اذیت کے پلوں پر
بچپن گزرا ہے، جنہیں خوشبو کے گھاٹ
جھڑکیاں اور گھٹن کا مسکن سمجھا ہےاور بھی غم ہیں، زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوامجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
2. Hum Dekhenge
A revolutionary anthem that envisions justice and equality:
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہےجب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گیجب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گےسب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھیاٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
3. Gulon Mein Rang Bhare
One of Faiz’s most romantic ghazals, celebrating the return of joy:
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلےقفس اُداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلےکبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلےبڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلےجو ہم پہ گزری، سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک، تری عاقبت سنوار چلےحضورِ یار ہوئی دفعتاً جو بات چلی
تو پھر حجاب کے انداز و اطوار چلے
4. Dasht-e-Tanhai
A poignant reflection on loneliness and longing:
دشتِ تنہائی
دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سرابدشتِ تنہائی میں دوری کے الم رہتے ہیں
چاندنی رات میں ہم، خواب زدہ پھرتے ہیںپھرتے ہیں، بیگانہ دل، ناشناس آنکھوں سے
ڈھونڈتی ہیں جسے، تیرے ہجر کی رات
5. Bol Ke Lab Azad Hain Tere
A stirring call for freedom of expression:
بول کہ لب آزاد ہیں
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہےدیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر ایک زنجیر کا دامنبول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
6. Aaj Bazaar Mein Pa Ba Jolan Chalo
This nazm captures the poet’s resilience in the face of oppression:
آج بازار میں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دکھیارے دلوں کا سوالاں چلوچاشنی سا لہو لب پہ لے کر چلو
شہر کے دُکھتے دلوں کی دوا ہو چلودست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو، خوں بہ داماں چلوراہ تکتے ہیں سب، شہرِ جاناں چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یاراں چلو
7. Raqeeb Se
A heartfelt expression of rivalry in love:
میرے دل، میرے مسافر
میرے دل، میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیںکسی یارِ نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کاسرِ کوئے ناشناساں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرناتمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتاہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
8. Intesaab
This dedication honors the struggles of the oppressed:
یہ داغ داغ اجالا
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیںیہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزلکہیں تو ہوگا شبِ سُست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غمِ دلجواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑےدیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں بانہیں، بدن بلاتے رہےبہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت قریب تھا حسنِ بہار کا دامنسبھی دلیل، سبھی منظر مٹا دیے گئے
سبھی حوالۂِٔ ہستی اٹھا دیے گئےگھری ہوئی ہے ظلمتوں میں روشنی، لیکن
نہ جنوں، نہ جدوجہد، نہ آرزو، نہ طلبنہ کوئی چراغ، نہ کوئی شرارِ جستجو
جو چاہو، نور کی برسات، ہم کہاں سے لائیں
9. Nisar Mein Teri Galiyon Ke
A patriotic poem infused with Faiz’s love for his homeland:
ے
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلےجو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلےہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزادبہت ہے ظلم کے دستِ بہانہ جُو کے لیے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیںبنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیںنثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
10. Shaam-e-Firaq Ab Na Pooch
A melancholic ghazal about separation:
شامِ فراق
شامِ فراق اب نہ پوچھ
آئی اور آ کے ٹل گئیدل تھا کہ پھر بہل گیا
جاں تھی کہ پھر سنبھل گئیدونوں تھے مہرباں بہت
دیر لگی مگر گئی
11. Chand Roz Aur Meri Jaan
This ghazal speaks of patience and endurance:
چند روز اور مری جان
چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز
ظلم کے بوجھ سے افلاک جھک جائیں گے
ان کے دن پھر جائیں گے، ظلمتیں مٹ جائیں گی
سبز ہوں گے گمبد و مینار، سجے گی محفل
ہر چراغاں میں سحر نور سے بھر جائے گیچند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز
صبر کے جام میں میٹھے گھونٹ بھر جائیں گے
ان کے خوابیدہ جگر میں تیز خنجر اُترے گا
ایک دن ان کا بھی محاسبہ ہوگا ضرور
12. Yad
A simple yet deeply emotional ghazal on remembrance:
کبھی کبھی دل کو
کبھی کبھی دل کو یہ گماں ہوتا ہے
کہ جیسے تو مجھ سے جدا نہیں ہواگزر رہے ہیں بڑے سکون کے ساتھ
غم کے موسم بھی، خوشی کے دن بھییہ اور بات کہ دور رہ کر بھی
تیرے تصور میں زندگی گزرےیہ اور بات کہ تیری یاد کا چراغ
جلتا رہے ہر گھڑی میرے دل میں
13. Silsilay Tor Gaya Wo Sabhi
A haunting ghazal of heartbreak:
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتےشکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتےکتنے شیریں تھے ترے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوئے
14. Kab Yaad Mein Tera Saath Nahin
A beautiful exploration of longing and connection:
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں
کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیںصدقے تیری ہر اک جنبش کے
ہر جنبش دل کی بات نہیںآج بھی انتظار ہے تیرا
لیکن آج وہ بات نہیں
15. Phir Barq Faroshan Chale
A metaphorical nazm filled with resilience:
پھر برق فروشاں چلے
پھر برق فروشاں چلے
پھر دشت کے رخسار پہ خیمے سجےپھر لوٹ آئی ہے بہار
پھر گلشن کی تقدیر جاگی ہےپھر شاخ شاخ نے چہکنا سیکھا
پھر پھولوں نے مہکنا سیکھاپھر بادِ صبا آئی
پھر سازِ طرب چھایاپھر اہلِ دل نے امید باندھی
پھر خواب جگاۓ، پھر اشک بہاۓپھر برق فروشاں چلے
پھر دشت کے رخسار پہ خیمے سجے
16. Naqsh-e-Faryadi
One of Faiz’s earlier masterpieces:
دل سے تیرے یاد آئے تو بہانے کر لے
دل سے تیرے یاد آئے تو بہانے کر لے
سجدہ کرنے چلا ہے، تو بہانے کر لےیہ عبادت ہے محبت کے تقاضوں کی طرح
دل جو مانگے وہی جینے کے بہانے کر لےچھوڑ دے رسمِ وفا، عہدِ وفا چھوڑ دے
دل کو جلتا ہے جو، اس کو جلانے کر لےجاں چھڑک دے کہیں، دل تو لگا لے کہیں
درد کی دھوپ ہے، اس دل کو سایہ کر لے
17. Subh-e-Azadi
A reflection on the partition of India and Pakistan:
یہ داغ داغ اجالا
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیںیہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزلکہیں تو ہوگا شبِ سُست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غمِ دلجواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑےدیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں بانہیں، بدن بلاتے رہےبہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت قریب تھا حسنِ بہار کا دامنسبھی دلیل، سبھی منظر مٹا دیے گئے
سبھی حوالۂ ہستی اٹھا دیے گئے
18. Dil Mein Ab Yun Tere Bhule Hue Gham
A ghazal reflecting on memories of lost love:
دل میں اب یوں تیرے بھولے ہوئے غم
دل میں اب یوں تیرے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیںایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیںرات روشن ہے مگر دل کے اندھیروں سے نہ پوچھ
چمک اُٹھتے ہیں جب تیرا کرم آتے ہیںتیری محفل سے اُٹھاتے ہیں وہ اُٹھ کر مجھ کو
جن کے ہاتھوں میں مرے جام و علم آتے ہیں
19. Tum Mere Paas Raho
A deeply personal and tender poem:
تم مرے پاس رہو
تم مرے پاس رہو
مرے قاتل، مرے دلدار، مرے پاس رہوجب کوئی بات بنے
جب کوئی راستہ نہ ہو، نہ کوئی ساتھ چلےجب کوئی بھی نہ سنے
جب کوئی بات کرےجب دھواں دھواں ہو چاندنی رات
جب بجھے بجھے سے ہوں دنجب تمہیں دیکھ کے لگے
کہ تم ہی روشنی ہو، تم ہی راتتم مرے پاس رہو
مرے قاتل، مرے دلدار، مرے پاس رہو
20. Qafas Udas Hai Yaro
A hopeful yet melancholic verse:
قفس اُداس ہے یارو
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلےقفس اُداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلےکبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلےبڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلےجو ہم پہ گزری، سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلےحضورِ یار ہوئی دفعتاً جو بات چلی
تو پھر حجاب کے انداز و اطوار چلے
Conclusion
Faiz Ahmed Faiz’s poetry is a treasure trove of emotions, revolution, and love. His works resonate deeply, inspiring generations with their timeless beauty and powerful messages. Whether you’re seeking solace, inspiration, or rebellion, Faiz’s poetry offers something profound for every reader.
For more poetry, explore Rekhta or read translated works to dive into Faiz’s legacy.